تقی مولا رلائے جا رہے ہیں
ادب پھر سے بھلائے جا رہے ہیں تقی مولا رلائے جا رہے ہیں ستم کوفہ کے تازہ ہو رہے ہیں تقی چھت سے گرائے جا رہے ہیں کبھی یہ آگ لاتے ہیں دروں پر کبھی یہ سم پلائے جا رہے ہیں نبی کی لاڈلی بیٹے تمہارے ازل سے غم اٹھائے جا رہے ہیں انہیں بھی زہر زوجہ نے دیا ہے حسن کے دکھ بتائے جا رہے ہیں یتیمی کا یہ تحفہ چھ برس میں نقی مولا اٹھائے جا رہے ہیں دکھی کاظم کے پہلو میں ہی سائر تقی مولا سلائے جا رہے ہیں ارسلان علی سائر