علم جو لگا یہ علمدار کا ہے
سلام
علم جو لگا یہ علمدار کا ہے
نشانِ وفا یہ وفادار کا ہے
کہاں کوئی ایسا ملے گا گھرانہ
گھرانہ جو نبیوں کے سردار کا ہے
جو خطبہ ء زینب سنا بولے شامی
یہ لہجہ تو سارا ہی کرار کا ہے
ریاکار سب کچھ بے جا کر رہا ہے
علی سے تعلق عزادار کا ہے
تقابل کوئی کیا کرے ان کا لوگو
کہ جن کا تو گھوڑا بھی معیار کا ہے
نہ خودار باطل کے آگے جھکے گا
کرم تیرے شبیر انکار کا ہے
جہاں بھر میں وہ تو شفا بانٹتا ہے
عجب فلسفہ ایک بیمار کا ہے
وہاں تک ملائک نہیں پہنچ پائے
جہاں پر قدم پہنچا راہوار کا ہے
زمانہ نہیں جان پائے گا سائر
جو رتبہ بنا ایک غم خوار کا ہے
ارسلان علی سائر
Comments
Post a Comment