درد سجاد نے آنکھوں میں چھپا رکھا ہے

 درد سجاد نے آنکھوں میں چھپا رکھا ہے

اور کڑیوں کو رفیق اپنا بنا رکھا ہے


ایک بچی ہے جو روتی ہے مگر چھپ چھپ کے

کتنا شبیر کے قاتل نے ڈرا رکھا ہے


صرف سجاد اکیلا ہی نہیں روتا لہو 

خون شبیر کے سر نے بھی بہا رکھا ہے


جسکو سجاد کے زخموں کی دوا کہتے ہیں 

اس سکینہ کو نحیفی نے ستا رکھا ہے


زخم لگتے ہیں اسے ایسے کہ جیسے مرکز 

سارے زخموں نے مہاری کو بنا رکھا ہے


کیسے سجاد بھلائے گا بھلا یہ منظر

نوک نیزہ پہ رداؤں کو اٹھا رکھا ہے


سونا بھی چاہے اگر تو وہ نہیں سو سکتا 

ایسے دروں نے مہاری کو جگا رکھا ہے


زخم کڑیوں کے نہیں گہرے بدن پر اتنے 

جتنا غیرت نے زخم گہرا لگا رکھا ہے


شکر سجاد کا کس طرح ادا ہو سائر

تجھ سے نوحہ جو غریبی کا لکھا رکھا ہے


ارسلان علی سائر

Comments

Popular posts from this blog

رل گئے سہرے پاک بنے دے رل گئی ہے بنرے دی ماء

قم کی شہزادی کا بابا لوٹ کر آیا نہ گھر

اصغر دی مسکان دا حملہ